Monday, June 18, 2012


شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ آفاق صدیقی صاحب! تحریر: سہیل احمد صدیقی آج (۱۷ جون ۲۰۱۲ء /۲۶ رجب ۱۴۳۳ھ کو) اردو اور پاکستان کے سچے سپاہی، سندھی اور اردو ادب کے محسن، نامور شاعر، نقاد ، براڈکاسٹر ، افسانہ نگار، نغمہ نگار اور ڈراما نگار پروفیسر محمد آفاق احمد صدیقی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایک اچھے شاعراور ادیب گر ہی نہیں، اچھے انسان اور اچھے مسلمان بھی تھے۔میں یہ بات رسماً نہیں، پورے وثوق اور اطمینانِ قلب سے کہہ رہا ہوں کہ حلقہ شعراء میں بیک وقت ان اوصاف سے متصف بزرگ و جوان، بہت کم کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔راقمِ حروف کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ، متعدد شخصیات ، خصوصاً مشاہیر سے ملاقات و صحبت کا شرف حاصل ہوا، بخدا ، وہ اُن مستثنیات میں سے تھے ، جن کی کوئی خرابی، خامی یا عیب، اُ ن کی شخصیت پر حاوی نہ ہوپایا۔مجھے آج اپنی ہی کہی ہوئی ایک بات شدت سے یاد آرہی ہے: ’’بڑا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، بڑا انسان ہونا بہت بڑی بات ہے اور وہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں‘‘ (اقتباس از مختصر ترین خطاب ، دورانیہ کم وبیش تین منٹ۔ تقریب پذیرائی ہائیکو انٹرنیشنل ، وضاحت نسیم نمبر، بمقام مرکزسادات امروہہ فیڈرل بی ایریا بلاک ۱۳، کراچی، ؤرخہ ۲۸مئی۲۰۰۰ء)۔ ۴ مئی ۱۹۲۸ء کو اس دارفانی میں قدم رنجہ فرمانے والے آفاق صاحب علم و فضل ، تصوف ، شعر و ادب کے موروثی ذوق کے حامل تھے۔بہت سے مشاہیر کے برعکس ، وہ بلاوجہ ، اپنی یا اپنے بزرگوں کی بڑائی کا بیان۔یا۔ پدرم سلطان بود قسم کے شوشے چھوڑنے سے گریز کرتے تھے۔نو آموز شعراء و ادبا ء کی جس قدر حوصلہ افزائی وہ کرتے تھے، بہت کم مشاہیر کرتے ہوں گے۔بات حوصلہ افزائی کی نکلی تو عرض کرتا چلوں ۔ وہ نہ صرف اپنے خورد معاصرین کو کتب کی تحریر و ترتیب کی دعوت دیا کرتے تھے، ان کی اشاعت کا اہتمام کیا کرتے تھے، ان کے ساتھ شعری نشستیں جماتے تھے، بلکہ ہرجگہ، برسر محفل ، ان سے اظہار شفقت بھی کیا کرتے تھے۔۔۔۔ ان کی متعدد بار کی ہدایت پر، محض ایک مرتبہ ان کے گھر پر منعقد ہونے والی، ایک شعری نشست میں شریک ہوسکا۔ وہ مجھے اپنی اور اپنے ادارے ، سندھی ادبی فاؤنڈیشن کی علمی و ادبی کتب کے منصوبوں میں شریک کرنے کے خواہاں تھے، اس پر عمل درآمد بوجوہ ممکن نہ ہوسکا۔ مجھے ایک مرتبہ آفاق صاحب نے اپنے عزیز دوست ، اختر حامد خاں کی کتاب، ’’چند بزرگ‘‘ پر خامہ فرسائی کی دعوت دی۔میں نے ایک مضمون سپرد قلم کرکے ان کے حوالے کیا۔کچھ عرصے بعد ، ایک اور کتاب، ’’اختر شمار ‘‘ میں دیگر کے ہمراہ ، میری بھی تحریر شامل ہوئی تو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مرحوم نے اس میں کوئی کاٹ چھانٹ نہیں کی ، جوں کا توں شائع کیا۔ مجھے ان سے کوئی تیرہ برس کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔جن دنوں میں اپنے رسالے ’ہائیکو انٹرنیشنل ‘ کے ’’اقبال حیدر نمبر‘‘ کی تیاری میں مشغول تھا ، انہوں نے مجھے یہ کہہ کر ششدر کردیا:’’بھئی اب تو آپ کا نمبر نکلنا چاہیے۔۔۔۔آپ نے اتنی شخصیات پر اس قدر کام جو کردیا ہے‘‘۔اسی طرح انہوں نے رسالے کے اشاعت کے بعد ، یہ بات نجی ملاقات میں اور سرمحفل ، کئی دفعہ کہی : ’’ بھئی آپ کے ساتھ تو شام منانا چاہیے۔۔۔آپ نے ہائیکو کے فروغ کے لیے اتنا کام کیا ہے ۔۔۔۔۔اور کہیں نہ ہو تو ہم اپنے کالج میں کرادیں گے اور نہیں تو فقیر کا گھر حاضر ہے‘‘۔کسی مستند سخنور کااپنے کسی خورد کے لیے اتنی بات بھی منھ سے نکالنا ، کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ بات تھوڑی پرانی ہے ، مگر نہایت اہم۔۔۔مجھ سے ، میرے بزرگ دوست ، اختر سعیدی نے بصد اصرار کہا:’’مجھے تمہارے بارے میں مضمون چاہیے، جلدی۔۔۔‘‘میں نے گھبرا کے کہا، ’’اختر بھائی ! میں کس سے لکھواؤں۔۔۔میں نے تو یہ کام کبھی نہیں کیا‘‘۔اختر سعیدی کا اصرار جاری رہا اور انہوں نے تین بزرگوں کے نام پیش کردیے۔ اب جب کہ دو بزرگوں کے بارے میں بھی، میں نے عذر تراشا کہ بوجوہ نہ لکھ پائیں گے تو اختر سعیدی نے جھٹ آفاق صدیقی صاحب کا نام لے دیا اور ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا، وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں، فوراً لکھ دیں گے۔میں نے کافی ہمت کرکے ، آفاق صاحب کو فون کرکے مدعا بیان کیا۔وہ حسب معمول بہت مصروف تھے اور کچھ بیمار بھی، مگر انہوں نے وعدہ کرلیا اور جلد ایک مختصر مضمون قلمبند کرکے میرے حوالے کیا جو روزنامہ جنگ ، کراچی کی زینت بنا۔ مرحوم آفاق صدیقی اردو میں جاپانی صنف سخن ہائیکو کے اولین طبع زاد شاعروں میں شامل تھے۔یہ بات ابھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی کہ آیا واقعی ۱۹۴۰ء کی دہائی میں میراجی ، حمید نظامی اور شاید سجاد حیدر یلدرم نے طبع زاد ہائیکو ۔یا۔مماثل سہ مصرعی نظمیں کہیں۔ اسی طرح ۱۹۶۶ء میں قاضی سلیم کی کاوش کو بھی سند قبولیت نہیں ملی۔ادھر قیام پاکستان کے بعد ، ایک ہندوستانی سندھی شاعرکی تقلید میں ، (ابھی نام یاد نہیں آرہا ، غالباً شیام ۔۔۔کوئی سندھی اہل سخن مع حوالہ مدد کریں تو عنایت!) سندھ کے ممتاز شاعر ڈاکٹر تنویر عباسی نے طبع زاد سندھی ہائیکو کی ابتداء کی ۔ان کی تقلید میں امداد عباسی ، شیخ ایاز اور شیخ را ز سمیت دیگر طبع آزمائی کرنے لگے۔یہ سلسلہ دراز ہوا تو انہی شعراء کے حلقہ بگوش، معروف اردو شاعر ، محسن بھوپالی نے ، ان کی دیگر منظومات کے ترجمے کے بعد، تنویر اور امداد کی سندھی ہائیکو ترجمہ کیں۔۔۔۔اسی بنیاد پر وہ دعویٰ کرتے تھے (اور ہم سمیت تمام عقیدت مند ایک عرصے تک اس پر صاد بھی کہتے رہے) کہ اردو میں اولیت کا شرف انہیں حاصل ہے۔ ۲۰۰۰ء میں ’ہائیکو انٹرنیشنل ‘ کے ’’اقبال حیدر نمبر‘‘میں آفاق صاحب نے ’’اقبال حیدر: ہائیکو اور واکا‘‘ کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے، یہ انکشاف (بغیر کسی دعوے کے) کیا کہ تیس برس پہلے، انہیں شیخ ایازکی دی ہوئی ایک انگریزی کتاب سے جاپانی شعر و ادب کے بارے میں دل چسپ معلومات حاصل ہوئیں،پھر ڈاکٹر تنویر عباسی کی تحریک پر ، سکھر بیراج کے قریب، لبِ مہران کے ایک سر سبز گوشے میں ، دریائے مہران(سندھ) کی شان میں اردو ہائیکو نگاری کی ابتداء ہوئی تو تنویراورشیخ ایازنے دو دو اور آفاق صاحب نے ایک اردو ہائیکو کہی۔۔۔۔۱۹۷۰ء کی یہ شعری نشست ، اردو میں اولین طبع زاد ہائیکو نگاری کا سبب بنی۔بعد ازآں انہوں نے اس بارے میں نجی گفتگو میں بھی تفصیل بتائی ۔ان کی ابتدائی ہائیکو ، سکھر کے مؤ قر اخبار ، کلیم میں شائع ہوئی تھیں۔جب یہ بات کافی عرصے کے بعد ، ان سے مزید تصدیق کے ساتھ ، راقم نے تحریر و تقریر کے ذریعے ، افشا کی تو مرحوم محسن بھوپالی بہت خفا ہوئے۔ سراپا خلوص ، مشفق و مہربان ، محترم آفاق صدیقی نے ’ہائیکو انٹرنیشنل ‘ کے ’’اقبال حیدر نمبر‘‘میں، شاعر موصوف کی شاعری اور شخصیت کو شاندار الفاظ میں خراج پیش کرتے ہوئے ایک ہائیکو عطا کی ، جو سرورق کی زینت بننا تھی۔۔۔مگر۔۔۔خیر یہ Off the record۔۔۔۔۔۔ابھی جانے دیجئے، ہائیکو ملاحظہ فرمائیں: ہم سب کے اقبال ہائیکو اور واکا سے ہیں کتنے مالامال! ہم نے جو عرصہ مرحوم کے ساتھ گزارا، انہیں ، مشاعروں سے مستغنی پایا۔۔۔بہت کم ہائیکو مشاعروں میں شریک ہوئے، جس کی وجہ شاید، درپردہ سیاست بھی ہو۔کئی مرتبہ ،ان کی موجودگی میں ،ان سے کہیں خورد(Junior) شعراء نے صدارت کی ، انہوں نے کبھی ہلکی سی خفگی بھی ظاہر نہ کی۔آخری مرتبہ ۲۰۱۰ء کے سالانہ ہائیکو مشاعرے میں شریک ہوئے۔مجھے افسوس ہے کہ اس دن ، اسٹیج سے میری ہائیکو کے فروغ کے لیے خدمات کا اعلان سن کر ، پہلے تو ایک ٹیلی وژن چینل نے ، ہنگامی طور پر ، انٹرویو کے لیے درخواست کی، جو مجھے قبول کرنا پڑی۔۔۔پھر ایک اور مجبوری کے تحت ، اسٹیج سے اتر کر جانا پڑا تو یوں اختتامی لمحات میں ، آفاق صاحب اور کچھ دیگر بزرگوں کا کلام ، اپنی بیاض میں نقل نہ کرسکا۔ آفاق صدیقی مرحوم اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ حق مغفرت کرے ، عجب آزاد مرد تھا! س ا ص/۱۸جون ۲۰۱۲ء